بے بی لونیا کے بارے میں کچھ تاریخی حقائق
بابل
جس کو انگریزی
میں Babylonia بھی کہا جاتا
ہے دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک
تاریخی شہر
ہے۔ اس تاریخی
شہر میں بخت نصر کا تعمیر کردہ شاہی محل فن
تعمیر کا ایک بہترین نمونہ تھا اور بابل کے معلق باغ قدیم تو دنیا کے عجائبات میں
شامل تھے وہ بھی اسی شہر کا ہی ایک حصہ ہوا کرتے تھے۔
بابل
(Babylon) میسو پوٹیمیا جو کہ موجودہ عراق کا حصہ ہے کا ایک قدیم شہر تھا
جو کلدانی سلطنت اور سلطنت بابل کا درالخلافہ تھا ۔ یہ موجودہ بغداد سےتقریبا 55
میل دوردریائے فرات کے کنارے آباد تھا۔
چار ہزار سال قبل مسیح 4000BC
کی تحریرں میں
بھی اس شہر کا تذکرہ ملتا ہے۔ 175 قبل
مسیح میں بےبی لونیا کے بادشاہ حمورابی نے اسے اپنا پایہ تخت بنایا تو یہ اس وقت
دنیا کا سب سے بڑا اور خوب صورت شہرتصور کیا جانے لگا۔ 689 قبل از مسیح میں بادشاہ بخت نصر دوم یا بنوکدنصر نے اسے
دوبارہ تعمیر کروایا۔ قدیم شہر دریائے فرات کے مشرقی کنارے پر آباد تھا۔ بخت نصر نے
دریا پر پل بنوائےا اور مغربی کنارے کا ایک وسیع علاقہ بھی شہر کی حدود میں شامل
کر لیاگیا۔ اس کے دور میں شہر کی آبادی کم
وبیش5 لاکھ تھی۔ معلق باغات (تیرتے باغات)
جن کا شمار دنیا کے قدیم سات عجائبات میں ہوتا ہے ، اسی بادشاہ نے اپنی ملکہ کے
لیئے ہی بنوائے تھے۔ 539 ق م میں ایران کے بادشاہ سائرس اعظم نے بابل پر قبضہ کر
لیا۔ 275 ق م میں اس شہر کا زوال شروع ہوا اور نئےتجارتی مراکز قائم ہونے سے اس کی
اہمیت تقریبا ختم ہو گئی ۔اور موجودہ دور میں اب اس کے صرف کھنڈر باقی ہیں۔
بابل کا ذکر ہاروت اور ماروت دو فرشتوں کی داستان کے طورپر قرآن پاک میں بھی موجود ہے۔ انگلش میں اس شہر کا
نام Babylon اور سلطنت کا نام Babylonia کہلاتا ہے ۔مسلمان تاریخ دانوں اور جغرافیہ دانوں کے مطابق
بابل کا شہر اسلام کی آمد سے طویل عرصہ قبل تباہ ہوچکا تھا۔ تاریخ اسلام میں بابل
کی جگہ کےبارے میں کہا جاتا ہےکہ سن 400 ہجری میں عباسیوں کے دور میں ایک چھوٹا سا
گاؤں بابل کے نام سے موجود تھا۔ابن نووفال محقق نے
بھی اسکے وجود کا تذکرہ کیا ہے ۔ان کے مطابق اسکی عمارتوں کو عراق میں سب سے قدیم
سمجھا جاتا تھا ۔یہ بادشاہوں نے اپنے مرکز کے طور پر تعمیر کروایا تھا ۔ ان کے
جانشینوں نے بھی اس کی اسی حیثیت یعنی دارالحکومت کے طور پر اسے استعمال کیا ۔
مورخ ابوالفداء لکھتے ہیں کہ یہی وہ شہر تھا جس میں نمرود نے
اپنی حکومت قائم کررکھی تھی اور اسی شہر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں
پھینکا تھا۔آج کل صرف کھنڈرات کے سوا کچھ بھی نظرنہیں آتا ہے۔تاہم، کھنڈرات کے
درمیان میں ایک چھوٹا سا قصبہ اب بھی موجود ہے۔
دوستو! یہ بھی یاد رہے۔یہ وہ ہی شہر ہے جس میں سکندر یونانی نے
اپنی فتوحات کا آغاز کیا تھا اور اسی شہر
میں 32 سال کی عمر میں 323 قبل مسیح میں
اس دنیا سے رخصت ہوا تھا۔ یہ وہ ہی سکندر ہے جس کے بارے بعض مورخین نے لکھا ہے کہ
اس نے آدھی سے زائد دنیا کو فتح کر لیا تھا۔
سلطنت بابل یا بے بی لونیا
سلطنتِ بابل جس کو Babylonia بھی کہتے ہیں۔ان دو سلطنتوں کا نام ہے جو
جنوبی میسو پوٹیمیا موجودہ عراق میں قائم ہوئیں کی گئی تھیں۔
پہلی سلطنت قدیم بابل کا
دورتقریباً 1750 قبل از مسیح سے 1200 قبل از مسیح کا ہے اس کا
بانی حمورابی تھا۔
جبکہ بعد کا بابل
کلدانی سلطنت کا دور کہلاتا ہے جو چھٹی صدی قبل از مسیح میں شاہ نیبو
پولسار نے اشوری سلطنت کے بابل کے کھنڈروں پر قائم کی۔ اور جسے شاہ بنو کد نصر یا
بخت نصر نے عروج بخشا۔ ان دونوں ہی سلطنتوں کا دارالحکومت بابل ہی تھا۔ 539 قبل از
مسیح میں سائرس اعظم ایرانی بادشاہ نے بے بی لونیا کو
سلطنت فارس میں شامل کر لیا۔
بے بی لونیا اپنے عہد کا مہذب ترین ملک شمار ہوتا تھا۔ یہاں کی
زبان موجودہ سامی زبانوں (عبرانی اور عربی) کی ماں تھی۔ اس کا رسم الخط پیکانی یا
میخی یا(سہ گوشی ) دنیا کے قدیم ترین خطوں میں شمار ہوتا ہے۔ لوگ مظاہر پرست تھے
کیونکہ انھیں مذہب سے زیادہ دنیا میں دلچسپی تھی۔ انھوں نے دیوی دیوتاؤں کے مندر بھی بنائے لیکن ان سے کہیںزیادہ پرشکوہ باغات
اور شہر تعمیر کیے ۔ بخت نصر کے تعمیر کردہ معلق باغ اور شاہی محل فن تعمیر کے
بہترین نمونے تھے۔ بابل کے لوگ علم ریاضی کے بھی ماہر تھے۔ سب سے پہلے انھوں نے ہی علم ہئیت کو ایجاد کیا۔ اور اس کے اصول بنائے۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔